Episode.14
مری کی خوبصورتی اپنے عروج پر تھی ہر طرف برف کی سفید چادر بچھی ہوئی تھی جیسے زمین نے چاندنی اوڑھ رکھی ہو ٹھنڈی ہوائیں درختوں کی شاخوں سے ٹکرا کر ایک مدہوش کر دینے والی سرگوشی کر رہی تھیں دور تک پھیلی پہاڑیاں دھند کے بیچ ایک عجیب سی پر اسرار اور دلکش منظر پیدا کر رہی تھی مہر برف میں خوشی سے ننگے پاؤں بھاگ رہی تھی چاندنی رات تھی اور آسمان سے گرتی برف ایک خواب تھا اس کے گیلے بالوں پہ برف چپک چکی تھی اس کا چہرہ ٹھنڈ سے لال ہو رہا تھا آتش کیبن کے اندر کھڑا اسے گھور رہا تھا گرم گوٹ پہنے کافی کا مگ ہاتھ میں لیے اس پاگل سی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو بنا جرابوں کے برف میں اچھل رہی تھی آتش تیزی سے اس کے پاس آیا
" مہر اندر چلو تمہیں ٹھنڈ لگ جائے گی"
مہر اس کی بات کیا سنتی بلکہ برف اٹھا کر آتش کی طرف اچھال دی آتش وہیں رک گیا اس کا سوٹ اس کے بال برف سے بھر چکے تھے مہر نے ہنسی روکنے کی کوشش کی تھی آتش اس کے قریب آیا
" تم کہہ نہیں سکتی مگر تمہاری شرارتیں بھی سب کچھ کہہ دیتی ہیں"
اس نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا مہر کی ہنسی ایک پل کے لیے رک گئی اس کی آنکھیں آتش کی گہری بھوری آنکھوں میں اٹک گئیں آتش نے اس کے ہاتھ تھامے مہر کی انگلیاں ٹھنڈی ہو رہی تھیں
" تمہیں معلوم ہے مہر، تمہاری یہ ٹھنڈی انگلیاں صرف مجھے گرم کرنی آتی ہیں "
آتش نے اس کے دونوں ہاتھ اپنی گرم پاکٹس میں ڈال دیے بون فائر کی روشنی ان کے چہرے پر پڑ رہی تھی بارش اب بھی گر رہی تھی اور اس پل صرف ایک چیز کی کمی تھی۔
مہر کی آواز ۔۔۔۔۔
☆☆☆
وہ ایک خوبصورت پرائیویٹ بیج تھا چاندنی پانی پر بکھر رہی تھی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی دور دور تک صرف سمندر کے لہروں کی آواز سنائی دے رہی تھی یہ جگہ زریاب نے اسپیشل مشعل کے لیے ارینج کی تھی تاکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار سکیں مشعل اپنے خوبصورت بالوں کو سیدھا کرتے ہوئے ریت پر بیٹھی سمندر کو دیکھ رہی تھی ذریاب اس کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں دو گرم کافی کے مگ تھے
" تمہیں کافی پسند ہے نا تو میں نے سوچا تمہاری زبان بند کرنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے "
مسکراتے ہوئے وہ اس کے پاس بیٹھا مشعل نے کافی تھامتے اسے بری طرح گھورا
" میری زبان بند کرنے کا اتنا شوق ہے تمہیں کیا میں اتنا بولتی ہوں ؟"
اس نے چڑ کر کہا ذریاب ہلکا سا ہنسا پھر ایک سپ لے لیا
" مجھے تمہاری باتیں پسند ہیں مگر کبھی کبھی صرف تمہاری آنکھیں سننی ہیں "
زریاب نے مزے سے کہا مشعل نے رک کر دھیرے سے اس کو دیکھا۔ چاند کی روشنی میں ذریاب کی گہری نظریں اس پر ٹکی ہوئی تھیں تھوڑی دیر دونوں کے درمیان صرف سمندر کے لہروں کی آواز گونجتی رہی پھر مشعل نے ہلکا سا مسکراتے نظریں جھکالیں
" تمہاری آنکھیں ہمیشہ مجھے گھورتی کیوں رہتی ہیں"
ذریاب تھوڑا اس کے قریب ہو اور اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا
" کیونکہ یہ آنکھیں صرف ایک چیز کو دیکھنا چاہتی ہیں اور وہ صرف تم ہو مشعل"
اس نے اچانک مشعل کے ہاتھ سے کافی کا مگ لے کر سائیڈ پر رکھ دیا
" ذریاب میری کافی واپس کرو"
مشعل نے شاکڈ میں اس کو دیکھا
" مجھ سے زیادہ ضروری ہے کیا؟"
وہ مسکرایا
" زیادہ مت بنو میری کافی واپس کرو"
مشعل نے منہ بنایا ذریاب تھوڑا اور قریب ہوا
" اگر میں کہوں کہ تمہاری کافی لینا صرف ایک بہانا تھا تو ؟؟"
اس کی آنکھوں میں شرارت تھی
" اور اصل مقصد ؟"
مشعل نے ابرو اٹھا کر پوچھا
" تمہارے پاس تھوڑا اور وقت گزارنے کا"
زریاب کی آواز دھیمی تھی
" بنا کافی کے میں زریادہ دیر رومینٹک نہیں رہ سکتی سمجھے!"
اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ذریاب ہلکا سا ہنسا
" تو پھر مجھے تمہیں کسی اور چیز کا عادی بنا دینا چاہیے جو کافی سے بھی زیادہ نشہ کرے"
" کیا ؟"
مشعل نے کنفیوز ہو کر دیکھا زریاب کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی پھر دھیرے سے اس نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلائیں
" میرا پیار ۔۔۔۔صرف تمہارے لیے!"
☆☆☆
ایمل نے جیسے ہی ہاسپٹل کا کوریڈور کراس کیا اس کے قدموں میں تیزی آ گئی مگر اس کے دل کی رفتار اس کے قدموں سے کہیں زیادہ تیز ہو رہی تھی مومنہ جو اس کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کر رہی تھی کچھ جھنجھلا کر اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا
" کیا ہو گیا ہے یار ایمل، ریلیکس ہو جاو کوئی نہیں ہے ، ہم بس ابھی آیت سے مل کر چلے جائیں گے "
ایمل نے خوف زدہ نظروں سے اس کو دیکھا
" وہ۔۔۔۔وہ پھر سے آ جائے گا مومنہ، مجھے ڈر لگ رہا ہے پلیز جلدی چلو نا "
مومنہ نے رک کر اس کو غور سے دیکھا
" ریلیکس ہو جاؤ وہ آ بھی گیا تو تمہیں کھا نہیں جائے گا محبت کرتا ہے وہ تم سے بہت زیادہ"
مومنہ نے آخری لفظوں پر زور دیا تھا
" مومنہ پلیز"
ایمل نے گھبرا کر کہا
" اور نہ ہی وہ تم سے پیچھے ہٹے گا "
مومنہ جیسے جان کر مسکرائی تھی اور پھر تبھی ایمل کے سامنے ایک سایہ آیا وہ کانپ کر رہ گئی
رافع شاہ، لمبا گہرا اور خطرناک خاموشی کے ساتھ جیسے ایک شکاری اپنے شکار پر نظریں جمائے کھڑا ہو
" ایمل۔۔۔"
اس کا نام رافع کی زبان سے نکلا اور ہوا میں ایک عجیب سی گرمی بھر گئی
" اتنی دیر لگا دی آنے میں"
ایمل نے زور سے مومنہ کا ہاتھ پکڑ لیا لیکن مومنہ نے جلدی سے ہاتھ چھڑوا لیا
" بات کر لو ایمل میں تم دونوں کو سپیس دینا چاہتی ہوں میں ذرا اپنی فرینڈ سے مل لوں"
ایمل کو کہنے کے بعد آخر میں اس نے دونوں سے ہی کہا اور چلی گئی ایمل نے گھبرا کر قدم پیچھے لیے اب صرف وہ تھی اور رافع وہ پیچھے ہٹنے لگی تھی رافع نے اس کی کلائی مضبوطی سے پکڑ لی اس کی گرفت نرم مگر مضبوط تھی
" تم پھر سے مجھے اگنور کر رہی ہو ہاں! پھر سے میری کال ریسیو نہیں کر رہی"
اس کی آنکھیں مکمل طور پر ایمل کے چہرے پر قبضہ کیے ہوئے تھی
" تم۔۔۔۔ تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو؟"
ایمل نے نفرت بھری نظروں سے اس کو دیکھا رافع کے ہونٹوں پر ترچھی سی مسکراہٹ تھی
" تمہارا ہونے والا پرابلم "
ایمل نے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی لیکن رافع نے ایک دم سے اس کا ہاتھ موڑ دیا بنا دکھائے اس کے پیچھے دیوار کے ساتھ لگا دیا
" رافع کیا کر رہے ہو یہ ہاسپٹل ہے، چھوڑو مجھے"
ایمل گرنے کے قریب ہوئی تھی
" تم جو بھی ہو جہاں بھی ہو مجھے صرف تم سے مطلب ہے "
ایک سیکنڈ بھی ضائع کیے وہ اپنا چہرہ ایمل کے کان کے پاس لایا ایمل کے ہونٹ خشک ہو گئے جسم ٹھنڈا پڑنے لگا رافع نے اپنی انگلیوں سے اس کی تھوڑی پکڑ کر اس کا چہرہ اپنی طرف کیا،
"مجھے اگنور کرنا بند کر دو ورنہ۔۔۔"
اس کی آنکھوں میں وارننگ تھی
" میں تمہیں اگنور کرنے کا طریقہ سکھا دوں گا "
" تم ایک سائیکو ہو"
ایمل نے غصے سے کہا رافع نے مسکراتے ہوئے اس کے لبوں کے قریب سرگوشی سی کی
" اور تم میری ہو"
ایمل کی آنکھیں پھیل گئیں اس کے الفاظ اس کی پشت میں ایک عجیب سا احساس ڈال رہے تھے رافع نے آہستہ سے اس کی کلائی چھوڑی مگر اس کی انگلیاں اس کے ہتھیلی کے اوپر سے سرکتی ہوئی نیچے آئی ایک لمس، جو ملکیت اور خطرے سے بھرا تھا پھر اس نے ایک قدم پیچھے لیا، بالکل پرسکون سا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو
" میں جا رہا ہوں ۔۔۔۔"
رافع نے ایک آخری نظر اس پر ڈالی
" مگر یاد رکھنا تم سے پھر ملنے آؤں گا اور تب تم مجھ سے دور نہیں جا سکو گی "
اس کے جاتے ہی ایمل نے اپنی رکی ہوئی سانس باہر نکالی لیکن ایک عجیب سی کمی تھی جو اسے محسوس ہو رہی تھی جیسے اس کے دل کی دھڑکن اب بھی رافع کی تال پہ چل رہی ہو
☆☆☆
جنگل کے بیچ ایک پتلی سی پگڈنڈی تھی جہاں صرف ان دونوں کے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی ہوا ٹھنڈی تھی جھاڑیوں سے بارش کا پانی گر رہا تھا ہر جگہ سبز رنگ کا جادو تھا یہ جنگل تھا نتھیا گلی میں بارش ہو رہی تھی مہر ہر جگہ ادھر ادھر بھاگ رہی تھی کبھی کسی پھول کو چھوتی کبھی درختوں کے نیچے کھڑی ہو کر بارش کو محسوس کرتی آتش بس اسے دیکھتا رہا یہ لڑکی ہر پل نئے طریقے سے محبت کرنا سکھا دیتی تھی مہر آگے بڑھی، ایک تالاب کے پاس رک کر اپنی انگلیوں سے پانی کے اوپر دائرے بنانے لگی اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی آتش تیزی سے اس کے قریب آیا
" تمہیں ہمیشہ سب چیزوں کو ہاتھ لگانا ضروری لگتا ہے "
اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی مہر نے اس کی طرف دیکھا، مسکرائی اور پھر ایک دم پانی میں ہاتھ ڈال کر پانی آتش کی طرف اچھال دیا
" مہر۔۔۔۔"
آتش شاک میں ایک قدم پیچھے ہوا مہر ہنس نہیں سکتی تھی مگر اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی جیسے کہہ رہی ہو مجھ سے پنگا مت لینا آتش دھیرے دھیرے آگے بڑھا مہر پیچھے ہٹی اس کے پیچھے تالاب تھا اور آتش بالکل اس کے سامنے
" تمہیں سزا ملنی چاہیے"
آتش نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا مہر کے ہونٹ کھلے کے کھلے رہ گئے اس سے پہلے کہ وہ تالاب میں گرتی آتش نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا مہر اس کے چوڑے سینے سے ٹکرا گئی ہلکی ہلکی بارش گر رہی تھی آتش کے گرم ہاتھ اب بھی مہر کی کمر کو پکڑے ہوئے تھے
" تم شرارتی، پر تمہاری ہر شرات بھی اب صرف میری ہے"
اس نے اس کے بالوں سے پانی ہٹایا مہر کے گال سرخ ہوئے آس پاس صرف بارش کی آواز تھی آتش کی سانسیں تھیں اور ان دونوں کے درمیان چند انچ کا فاصلہ تھا آتش دھیرے سے جھکا اور اس کے گیلے گالوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دیے بارش تیز ہو چکی تھی جنگل کی ہر چیز گیلی تھی اور اب مہر بھی ایک احساس محسوس کر رہی تھی
☆☆☆
رات کا اندھیرا ہر طرف پھیل چکا تھا ہوا تیز ہو رہی تھی لیکن ایمل کے اندر جو طوفان تھا اس کے سامنے یہ ہوا کچھ بھی نہیں تھی اس نے غصے سے مومنہ کی طرف دیکھا
" ہمیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا"
اس کا دل عجیب سی بے چینی لیے ہوئے تھا مومنہ نے کچھ نہیں کہا اور ایک طرف دیکھا اس نے مومنہ کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور پھر اس کا سانس رک گیا وہ وہیں تھا ایک پرانی لاوارث عمارت کی چھت پر جیسے اس جگہ کا اصل مالک ہو ہوا اس کے گھنے بالوں کو ہلکا سا ہلا رہی تھی اس کے ہاتھ پوکٹس میں تھے لیکن اس کی نظریں صرف ایمل پر جمی ہوئی تھی ایمل نے ایک تیز نظر اس پر ڈالی پھر مومنہ کو گھورا اگر اسے یہاں آنے سے پہلے معلوم ہوتا کہ یہ سب دونوں کا پلان تھا تو وہ کبھی نہ آتی اسے مومنہ پر شدید غصہ آ رہا تھا جو اسے یہاں لے کر آئی تھی اس نے دیکھا رافع چل کر اس کی طرف آ رہا ہے دھیرے سے پر اعتماد سا جیسے کسی بھی حالت میں ایمل کو اپنے جال سے نکلنے نہیں دے گا اس سے پہلے ایمل بھاگتی مومنہ نے اس کو پکڑ لیا
" بیٹھ کر بات کر لو یار بہت بھاگ لی تم اس سے"
ایمل روہانسی ہو گئی اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی رافع اس کے قریب آ چکا تھا مومنہ دوسری طرف چلی گئی
" کتنا بھاگو گی ؟ تمہیں لگا تم مجھے اگنور کر دو گی تو میں پیچھے ہٹ جاؤں گا "
" مجھے ۔۔۔۔ مجھے یہ سب نہیں چاہیے رافع"
اس کی آواز گھبرائی ہوئی تھی لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلی نہیں رافع نے صرف ایک قدم آگے بڑھایا
" لیکن مجھے چاہیے "
اس کا لہجہ دیھما اور گہرا تھا ایمل کی پشت پر سنسنی سی دوڑ گئی اس نے پیچھے مڑنے کی کوشش کی رافع فورا حرکت میں آیا اور اگلے ہی سیکنڈ اس نے ایمل کی کلائی پکڑ کر جھٹکے سے اس کو قریب کیا اب دونوں کے درمیان صرف ایک دھڑکن کا فاصلہ تھا ایمل نے گھبرا کر پیچھے دیکھا وہاں چھت کی ریلنگ تھی اس کے پیچھے کوئی راستہ نہیں تھا رافع نے اسے پھنسا لیا تھا
" یہ۔۔۔۔ یہ غلط ہے لوگ۔۔۔۔"
" یہاں کوئی نہیں ہے "
رافع کی گہری سرگوشی سنائی دی اس کی انگلیاں ایمل کی کلائی سے سرکتی ہوئی اس کی انگلیوں تک گئیں
" تم صرف مجھے سنو گی اب"
ایمل نے کلائی چھڑوانے کی کوشش کی لیکن رافع نے اس کے ہاتھ کو اپنے سینے پر رکھ دیا
" ڈر رہی ہو؟"
اس نے سرگوشی کی ایمل نے آنکھیں بند کر لیں اس کا سانس پھر سے رک گیا تھا رافع کا لمس اس کی موجودگی اس کی شدت بھری نظر سب ملا کر اس کا پورا باڈی سسٹم شٹ ڈاؤن کر رہے تھے رافع نے اس کی تھوڑی اٹھائی ، زبردستی اس کو اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کیا
" مجھ سے دور بھاگنا بند کرو ایمی ، تمہارے کالز نہ اٹھانے، میسج اگنور کرنے ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب میں تمہیں اپنے طریقے سے سمجھاؤں گا "
ایمل نے دھیرے سے آنکھیں کھولی رافع کی آنکھوں میں ایک ایسی شدت تھی جو اس کے اندر ایک عجیب سی جلن کا احساس پھیلا رہی تھی
" اگر مجھے کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں اسے مانگتا نہیں میں لے لیتا ہوں"
ایمل نے سانس روک لیا مگر رافع کے گرفت اس کے ہاتھ پر اور سخت ہو گئ
" مجھے یہ سب پسند نہیں ہے جو کچھ تم کرتی پھر رہی ہو اگر تم سمجھدار ہو تو آج کے بعد مجھے اوائڈ کرنا بند کر دو تم جتنا بھی بھاگو جتنا بھی چھپ جاو میں ہر بار واپس آ جاؤں گا کیونکہ میں ہر جگہ ہوں ایمل تمہاری ہر جگہ "
ایمل نے اس کا ہاتھ جھٹکے سے چھڑوانے کی کوشش کی مگر رافع نے اس کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیا
" تم میری ہو ایمل جتنی جلدی یہ بات اسیپٹ کر لو اتنا ہی بہتر ہوگا "
ایمل روہانسی ہو گئی وہ ہر بار ہر دفعہ یہی ایک بات دہراتا تھا ایسا وہ کیوں کرتا تھا وہ سمجھ نہیں پاتی تھی اس کی ہر گھبراہٹ میں صرف ایک چیز چل رہی تھی
رافع سے دور بھاگنا ممکن نہیں ہے۔۔۔
رافع نے دھیرے سے اس کا گال چھوا پھر پیچھے ہٹا اور اندھیرے میں گم ہو گیا اس کے جاتے ہی مومنہ بھاگ کر اس کے پاس آئی
" تم نے مجھے روکا کیوں میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے اس سے کوئی بات نہیں کرنی"
ایمل غصے سے چلائی
" میں نے سوچا تم صرف اوائڈ کر رہی ہو تم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہو پھر یہ سب کیا ہے "
مومنہ کو جھٹکا سا لگا تھا
" محبت؟ مومنہ اگر تمہیں پتہ ہوتا کہ مجھے اس سے ڈر لگتا ہے تو کیا تب بھی تم مجھے اس کے سامنے دھکا دیتی یا اس طرح مجھے چھوڑ کر چلی جاتی"
ایمل کی آواز تیز ہو گئی
" مجھے لگا تم بس ناراض ہو یا پھر کنفیوز۔۔۔۔ شاید تم دونوں کے درمیان کوئی ناراضگی چل رہی ہے تب ہی میں نے۔۔۔۔۔"
مومنہ نے شرمندگی بھرے لہجے میں کہا
" ناراض، کنفیوز، کاش صرف یہی ہوتا"
ایمل نے تھک ہار کر نظریں چرا کر دھیمی آواز میں کہا
" مجھے بتاؤ اہمل، رافع نے کچھ کیا ہے کیا"
مومن سنجیدہ ہوئی
" بہت کچھ۔۔۔۔۔ لیکن تم نے مجھے سننے کا موقع دیا ہی کب "
مومنہ مزید شرمند ہوئی
" سوری یار مجھے لگا یہ صرف تمہاری ضد ہے تم مجھے سب کچھ بتاؤ آخر مسئلہ کیا ہے تم فکر نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں"
ایمل اس کو دیکھ کر رہ گئی
Continue....
Episode read krny k baad apni ray zaroor dain or novel ko support krna or library mai add krna na bholiye ga...
Murree ki khoobsurti apne charam par thi. Har taraf barf ki safed chadar bichi thi, jaise zameen ne chandni odh li ho. Meher khushi se nange paon barf mein bhaag rahi thi, uske geelay baal aur laal hota chehra uski masoomiyat aur deewangi ka izhaar kar rahe the. Atish cabin ke andar se usse dekh raha tha, haath mein coffee ka mug tha. Jab usne dekha ke Meher bina jurabon ke barf mein uchhal rahi hai, wo foran uske paas gaya.
"Meher andar chalo, tumhein thand lag jaayegi," usne kaha.
Lekin Meher ne jawabi taur par uspe barf uchhaal di.
Atish ruk gaya magar phir muskara ke bola,
"Tum keh nahi sakti, magar tumhari shararatein sab kuch keh deti hain."
Phir usne Meher ke thand se sujh gaye haath apni warm pocket mein rakh diye aur bola,
"Meher, tumhari yeh thandi ungliyaan sirf mujhe hi garam karna aata hai."
Bonfire ki roshni un dono ke chehron ko roshan kar rahi thi. Har cheez thi... sirf Meher ki awaaz ki kami thi.
Doosri taraf Zaryab ne ek private beach par surprise plan kiya tha Mashal ke liye. Samundar ke kinare dono coffee pee rahe the.
"Main ne socha tumhari zaban band karne ka yeh behtareen tareeqa hai," Zaryab ne mazaak mein kaha.
Mashal ne ghoor ke dekha aur bola, "Mujhe zaban band karne ka itna shauq kyun hai tumhein?"
Zaryab muskaraaya,
"Mujhe tumhari baatein pasand hain… magar kabhi kabhi sirf tumhari aankhein sun'ni hoti hain."
Phir usne Mashal ka haath apne dono haathon mein liya aur kaha,
"Yeh aankhein sirf ek cheez dekhna chahti hain… aur wo tum ho, Mashal."
Coffee ka mug side pe rakh kar bola,
"Main chahta hoon thoda aur waqt tumhare paas guzaarun."
Mashal ne kaha,
"Bina coffee ke main zyada der romantic nahi reh sakti!"
Zaryab muskuraya aur kaha,
"Toh mujhe tumhein kisi aur cheez ka aadi bana dena chahiye... jo coffee se bhi zyada nasha kare — mera pyaar, sirf tumhare liye."
Teesra scene hospital ka tha jahan Aimel Rafi se door bhaag rahi thi. Lekin Rafi, ek hunter ki tarah uska intezar kar raha tha. Jaise hi usne Aimel ko dekha, uski aankhon mein intense jazbaat ubhar aaye.
"Aimel… itni dair laga di aane mein?"
Aimel peeche hattne lagi, lekin Rafi ne uski kalai pakad li aur kaha:
"Phir se mujhe ignore kar rahi ho…?"
Aimel ne nafrat se dekha:
"Samajhte kya ho apne aap ko?"
Rafi ne cheekhi nazar se kaha:
"Main? Tumhara hone wala problem."
Phir usne uska haath diwar ke saath lagate hue kaha,
"Mujhe ignore karna band karo warna… main tumhein ignore karne ka tareeqa sikha dunga."
Aimel ne kaha,
"Tum ek psycho ho."
Rafi muskara ke bola,
"Aur tum meri ho."
Uska lehja, uska touch... sab kuch Aimel ke liye ek intense silsila ban gaya tha. Rafi gaya zaroor, magar ek ahsas chhod gaya — jaise uske dil ki dhadkane ab bhi Rafi ke naam par chal rahi hoon.
Episode ke end mein Meher aur Atish Nathia Gali ke jungle mein thay. Har taraf sabz rang, baarish ka paani, aur sirf un dono ke qadam ki aawaaz. Meher kabhi phool ko chooti, kabhi ped ke neeche baarish mehsoos karti — aur Atish bas usse dekhta rehta.